اندھیر نگری چوپٹ راج



 آمنہ ماہم

”اندھیر نگری چوپٹ راجا،ٹکے سیر بھاجی ٹکے سیر کھاجا“بھاجی کا مطلب ہے پکی ہوئی سبزی اور ترکاری اور کھاجا ایک قسم کی مٹھائی کا نام ہے۔اس کہاوت کا مطلب ہے کہ اگر حاکم بیوقوف یا نالائق ہوتو ملک میں لوٹ مار اور بے انصافی عام ہوجاتی ہے۔


یہ کہاوت عموماً ایسے وقت بولی جاتی ہے جب کسی جگہ، ملک،شہریا ادارے کے بارے میں یہ بتانا ہو کہ وہاں اچھے بُرے کی تمیز نہیں،بدنظمی ہے،لوٹ مار مچی ہوئی ہے اور کسی کے ساتھ انصاف نہیں ہوتا۔

اس کی کہانی یہ ہے کہ ایک گرو اور اس کا چیلا ایک ایسے شہر سے گزررہے تھے،جہاں ہر چیز ٹکے سیر بکتی تھی،چاہے سبزی ہویا مٹھائی۔

سستی سے سستی اور مہنگی سے مہنگی چیز کے دام ایک ہی تھے،یعنی ایک ٹکے کا ایک سیر۔اتنا سستا شہر دیکھ کر چیلے کاجی للچا گیا۔

گروسے کہنے لگا،”یہیں رہ جاتے ہیں۔مزے مزے کی چیزیں خوب پیٹ بھر کر کھایا کریں گے۔“

گرونے چیلے کو سمجھایا کہ ایسی جگہ رہنا ٹھیک نہیں ،جہاں اچھے اور بُرے میں کوئی فرق نہیں،لیکن چیلانہ مانا۔


گرو اسے وہیں چھوڑ کر آگے بڑھ گیا۔ادھر چیلا مٹھائیاں اور روغنی کھانے کھاکھا کر خوب موٹا ہو گیا ۔ایک دن شہر میں ایک شخص کو کسی نے جان سے ماردیا۔سپاہیوں نے قاتل کو بہت تلاش کیا لیکن اسے نہ پکڑ سکے۔مرنے والے کے رشتے داروں نے راجا سے فریاد کی کہ ہمیں جان کا بدلہ جان سے دلایا جائے ۔

راجا کو پتا چلا کہ قاتل کا کوئی سراغ نہیں ملتا۔اندھیر نگری تو تھی ہی اور سارا کام کاج تو ویسے بھی چوپٹ تھا۔

اس بیوقوف راجا نے حکم دیا،“کوئی بات نہیں،جان کا بدلہ جان سے لیا جائے گا۔شہر میں جو آدمی سب سے موٹا ہواسے پکڑ کر پھانسی دے دو۔

انصاف ہو جائے گا۔“

ٹکے سیر مٹھائی کھا کر موٹا ہونے والا چیلا ہی شہر میں سب سے موٹا نکلا۔سپاہیوں نے اسے پکڑ لیا اور چلے پھانسی دینے۔اتفاق سے گروجی دوبارہ وہاں سے گزرے۔چیلے نے انہیں دیکھ کر دہائی دی۔گرو نے سارا معاملہ سن کر کہا،”میں تم سے پہلے ہی کہتا تھا یہاں رہنا ٹھیک نہیں۔

یہاں بُرے اور بھلے میں کوئی تمیز نہیں۔خیراب کوئی تدبیر کرتاہوں۔“

یہ کہہ کر گرونے سپاہیوں سے کہا،”اسے چھوڑ دو،مجھے پھانسی دے دو،تمہاری مہربانی ہوں گی۔“

سپاہیوں نے حیران ہو کر پوچھا،“کیوں؟“

گرو نے جواب دیا،”اس لیے کہ یہ وقت موت کے لئے بہت اچھا ہے۔

اس وقت جو پھانسی لگ کر مرے گا وہ سیدھا جنت میں جائے گا۔“

یہ سن کر سارے سپاہی پھانسی پر چڑھنے کو تیار ہو گئے۔کو توال نے یہ سنا تو کہا ،‘’‘سب کو چھوڑو پہلے مجھے پھانسی دو۔“

اس طرح پورے شہر میں”مجھے پھانسی دو،مجھے پھانسی دو”کا شور مچ گیا۔راجا کو پتا چلا تو اس نے کہا،”جنت میں جانے کا پہلا حق میراہے۔پہلے مجھے پھانسی دو۔“پس راجا کو پھانسی دے دی گئی۔اس طرح چیلے کی جان بچی اور گروجی اسے لے کر بھاگے۔

Post a Comment

0 Comments