جابر بن حیان



 علم کیمیاء کی بنیاد مسلمانوں نے رکھی تھی۔انہوں نے تصعید،تقطیر،تبلور اور تذویب کے طریقے بیان کئے اور بے شمار کیمیائی تیزاب بنائے جیسے نائٹرک ایسڈ،سلفیورک ایسڈ،ہائیڈروکلورک ایسڈ،مرکری،مرکری آکسائیڈ،پوٹاشیم نائٹریٹ۔کیمیاء کی اکثر و بیشتر اشیاء کی دریافت کا سہرا جابر ابن حیان کے سر ہے۔


اس لئے جابر کو جدید علم کیمیا کا جد امجد تسلیم کیا جاتا ہے۔تمام اہالیان مشرق و مغرب متفق ہیں کہ جابر دنیا کا پہلا مستند کیمیا دان تھا۔جابر نے کیمیا میں انمٹ نقوش چھوڑے،بے شمار کیمیائی مرکبات ایجاد کئے جیسے سلفیورک ایسڈ،نائٹرک ایسڈ اور ہائیڈروکلورک ایسڈ۔جابر علم کیمیا کا مایہ ناز استاد،پہلا نامور سائنسدان اور ممتاز دانشور تھا۔

جابر نے کیمیا میں تجربات کو خاص اہمیت دی تھی۔جابر کو کیمیا میں وہی اعلیٰ مقام حاصل تھا جو ارسطو کو منطق میں تھا۔ابن خلدون کے بقول جابر کو علم کیمیا کے مرتب کرنے میں امام کا درجہ حاصل تھا۔

اوراق زیست:

آپ کی پیدائش طوس(ایران) کے خاندان ازد میں ہوئی تھی۔والد حیان الازدی پیشہ ور عطار(دوا ساز)تھے جن کا تعلق جنوب عرب کے قبیلہ ازد سے تھا جو یمن میں کوفہ ہجرت کر آیا تھا۔

حیان نے عباسی خاندان کی اموی خاندان کے خلاف بغاوت میں مدد کی تھی جنہوں نے اس کو خراسان میں مدد حاصل کرنے کیلئے بھیجا تھا۔حیان کسی طرح اموی خاندان کے ہاتھ لگ گئے اور انہوں نے ان کو قتل کروا دیا۔ان کی والدہ ننھے بچے کو ساتھ لے کر یمن ہجرت کر گئیں اور اپنے قبیلے کے لوگوں میں رہنے لگیں جہاں جابر نے ابتدائی تعلیم حاصل کی تھی۔جابر نے صغر سنی میں قرآن،حدیث اور دیگر علوم کی تعلیم حاصل کی۔

مروجہ تعلیم مکمل کرکے جب وہ فارغ التحصیل ہوئے تو ان کے اساتذہ ان کی علمی لگن اور ذہانت سے بہت خوش تھے۔جابر کو علم کیمیا میں شغف ان کے والد کی کیمیا میں دلچسپی کی وجہ سے ہوا تھا۔عالم شباب میں ایک دن سر میں سونا بنانے کا سودا پیدا ہو گیا۔سامان اکٹھا کیا اور کیمیا گری کی دھن میں مصروف ہو گئے۔دھاتوں کو جڑی بوٹیوں کے ساتھ پھونکنے میں لگ گئے،ہر روز نئے نئے تجربات کئے جو ایجادات کی نئی نئی راہیں کھول رہے تھے۔

متجس ذہن نے نئی نئی اشیاء ایجاد کر لیں،اور ایک دن کیمیا کے موجد اعلیٰ کا اعزاز مل گیا۔جب بنو عباس نے بغداد میں زمام اقتدار سنبھال لیا تو جابر کوفہ سے بغداد ہجرت کر گئے جہاں ان کی شہرت پہلے ہی پہنچ چکی تھی۔خلیفہ ہارون الرشید کے وزیراعظم جعفر برمکی کی سرپرستی میں طبابت شروع کر دی۔دربار سے وابستگی کے بعد جابر نے بڑی شہرت حاصل کی۔برمکی خاندان کے ساتھ جابر کے اچھے تعلقات تھے۔

جب یہ خاندان 803ء میں خلیفہ ہارون الرشید کے زیر عتاب آیا تو جابر کو گھر میں نظر بند کر دیا گیا۔کوفہ میں نظر بندی کے دوران 815ء میں اس نے اپنی جاں جان آفریں کے سپرد کی،بوقت رحلت اس کے تکیے کے نیچے کتاب الرحمہ کا مسودہ تھا۔

قاضی صاعد اندلسی نے اپنی شہرہ آفاق کتاب طبقات الامم (1068ء) میں علوم عرب کا ذکر کرتے ہوئے جابر بن حیان کے بیان میں لکھا ہے:صوفی اور علوم طبیعات کا جید عالم،فن کیمیا میں مہارت تامہ رکھتا تھا۔

اس فن میں اس کی متعدد تصانیف مشہور ہیں۔علاوہ برس اکثر اوصناف فلسفہ میں بھی دخل رکھتا تھا اور علم باطن کا پیروکار تھا جو متصوفین اسلام مثل حرث بن اسد،محاسبی اور سہل بن عبداللہ تستری وغیرہ کا مذہب ہے۔مجھے محمد بن سعید سر قسطی معروف بہ ابن المشاط اصطرلابی نے اطلاع دی ہے کہ اس نے مصر میں جابر بن حیان کی ایک کتاب علم اصطرلاب پر دیکھی ہے جس میں اصطرلاب سے متعلق ایک ہزار بے نظیر مسائل ہیں۔


طبقات الامم کا اردو میں ترجمہ قاضی احمد میاں اختر نے 1928ء میں کیا تھا۔فن کیمیا کے ضمن میں انہوں نے حاشیہ میں لکھا ہے:اس کی اسرار الکیمیا لیڈن سے 1685ء میں چھپی تھی،اس کے پانچ سو رسائل جو ایک ہزار صفحات ہیں اسٹراسبرگ میں 1530ء اور 1625ء کے مابین چھپ چکے ہیں۔فن کیمیا میں اس کی ایک کتاب 1572ء میں بازل میں چھپ گئی ہے۔جابر کی بعض تصانیف کو دیکھ کر بعض یورپین مصنفین کی رائے ہے کہ اس کی کتابیں فی الحقیقت فن کیمیا میں نہیں بلکہ وہ سب کی سب تصوف میں ہیں جن میں جابر نے کیمیاوی اصطلاحات کے پردہ میں اپنے صوفیانہ خیالات کا اظہار کیا ہے۔

(صفحہ 121)

اساتذہ:

تذکرہ نگاروں کا کہنا ہے کہ جابر نے امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ (700-765) سے روس لیا تھا۔کچھ مورخین اس بات کی تائید کرتے اور کچھ تردید کرتے ہیں۔تردید اس لئے کہ شیعہ کتب میں امام جعفر الصادق رضی اللہ عنہ کے کسی ایسے شاگرد کا ذکر نہیں ملتا جس کا نام جابر تھا۔لیکن بعض جگہوں پر آپ کی کنیت ابو موسیٰ بھی درج ہے جیسا کہ زکریا الرازی نے آپ کا ذکر ابو موسیٰ کے نام سے کیا تھا۔

فہرست ابن ندیم میں بھی آپ کا نام ابو موسیٰ لکھا ہوا ہے۔لاطینی میں جابر کی ترجمہ شدہ کتابوں میں مصنف کا نام Geber لکھا جاتا ہے۔یہی نام یورپ میں زبان زد عام تھا۔

سائنسی زندگی کا آغاز

کاروان سائنس کے سالار جابر کی سائنسی زندگی کا آغاز اس وقت شروع ہوا جب انہوں نے کوفہ میں رہائش اختیار کی تھی۔یہاں آپ نے اپنی تجربہ گاہ قائم کی اور کیمیا کی ان تحقیقات کی تکمیل کی جن کی وجہ سے ان کو دنیا کا پہلا موٴقر و مستند کیمیا دان ہونے کا اعزاز تفویض کیا گیا۔

جابر کے دور زندگی میں کیمیا کی ساری کائنات قیمتی دھاتوں پارہ،تانبہ،چاندی کو سونے میں ڈھالنے کی کوشش کے گرد ہی گھومتی تھی لیکن جابر کی تحقیقات کا دائرہ اس بے سود کام سے بہت ارفع تھا۔آپ تجرباتی کیمیا کے بانی مبانی تھے۔اس ضمن وہ خود کہتے ہیں:”کیمیا میں سب سے ضروری شے تجربہ ہے۔جو شخص اپنے علم کی بنیاد تجربے پر نہیں رکھتا وہ ہمیشہ غلطی کھاتا ہے۔

پس اگر تم کیمیا کا صحیح علم حاصل کرنا چاہتے ہو تو تجربوں پر انحصار کرو اور صرف اسی علم کو صحیح جانو جو تجربے سے ثابت ہو جائے۔ایک کیمیا دان کی عظمت اس بات میں نہیں ہے کہ اس نے کیا کچھ پڑھا ہے بلکہ اس بات میں ہے کہ اس نے کیا کچھ تجربے سے سیکھا ہے۔“

تاریخ انسانیت میں جابر ابن حیان کا نام کیمسٹری میں زریں کارناموں کی وجہ سے جلی حروف میں لکھا جاتا ہے۔

جیسا کہ ذکر کیا گیا اس نے کیمیا میں باضابطہ تجربات پر زور دیا۔اس نے کیمیا کو جادو ٹونے سے آزادی دلا کر باقاعدہ سائنس کا رتبہ عطا کیا۔لیبارٹری میں استعمال ہونے والے 20 سے زیادہ سائنسی آلات ایجاد کئے۔اس کے علاوہ کئی کیمیاوی مادے جیسے ہائیڈرو کلورک ایسڈ،نٹرک ایسڈ،عمل تصعید،قلماؤ کے طریقے ایجاد کئے جو آج کل کیمسٹری اور کیمیکل انجینئرنگ میں اساسی اہمیت کے حامل ہیں۔

ان کے علمی کاموں اور کارناموں کی وجہ سے نویں صدی سے تیرھویں صدی کے دوران آنے والے مسلمان کیمیا دانوں جیسے الکندی،الرازی،ابو القاسم العراقی کیلئے تحقیقات کا راستہ آسان ہو گیا۔آپ کے اشہب قلم سے جو نادر الوجود کتابیں نمودار ہوئیں،ان کا اثر یورپ کے کیمیا دانوں پر دیرپا تھا۔ شاید اسی لئے وہ’فلاسفرز سٹون‘پارس پتھر کی تلاش میں غلطاں و پیچاں رہے تھے۔


جابر کو کیمیا میں تجربات کی اہمیت کا پورا پورا خیال تھا۔وہ کہتا ہے:”کیمیا میں سب پہلی اہم چیز یہ ہے کہ انسانی عملی کام کرے اور تجربات کرے،کیونکہ جو شخص عملی کام نہیں کرتا اور نہ ہی تجربات کرتا ہے،وہ کبھی بھی اس مضمون میں ہنر مندی حاصل نہیں کر سکے گا“۔کتاب الحکمة الفلاسفیہ سے درج ذیل اقتباس ملاحظہ فرمائیں:

مرکری اور سلفر باہم ملاپ سے ایک پروڈکٹ بن جاتے مگر یہ فرض کر لینا غلط ہے کہ یہ عنصر بالکل نیا تھا اور یہ کہ مرکری اور سلفر مکمل طور پر تبدیل ہو گئے۔امر واقعہ یہ ہے کہ دونوں نے اپنی طبعی خواص قائم رکھے۔دونوں عناصر میں کیمیائی اتحاد ان کی خواص میں تبدیلی کے بغیر مستقبل ملاپ سے وجود میں آتا۔

بہ حیثیت استاد:

نوائے وقت 8 اکتوبر 2008ء صفحہ 3 پر پروفیسر اسرار بخاری رقم طراز ہیں:

”جابر ابن حیان جو اپنے وقت کے عہد ساز کیمیا دان تھے وہ ہر کسی کو کیمسٹری نہیں پڑھاتے تھے۔اس کیلئے وہ سخت امتحان لیتے تھے۔ایک طالب علم صدر الدین بہت دور سے پیدل سفر کرتے ہوئے ان سے کیمسٹری کی تعلیم حاصل کرنے کیلئے حاضر ہوا۔

جابر نے اس کو بغور دیکھا پھر اپنی لیبارٹری میں سے بوتل نکال لائے۔صدر الدین سے کہا میں تم کو اس شرط پر کیمسٹری پڑھاؤں گا کہ یہاں سے دور مقام پر میرے دوست کا قبیلہ رہتا ہے،ان کی کسی اور قبیلے سے عداوت ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ میں ان کے دشمن کیلئے کوئی زہر تیار کروں کہ جس کے ایک قطرے سے تمام افراد لقمہ اجل بن جائیں۔

صدر الدین نے جواب دیا بلاشبہ میں کیمسٹری پڑھنا چاہتا ہوں مگر ایسا کام ہر گز نہیں کروں گا۔


جابر نے اس کو گلے لگا لیا اور کہا میں تو یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ تم سائنس انسانیت کی بہتری کیلئے پڑھنا چاہتے ہو یا اس کو اذیت دینے کیلئے؟ جابر نے اس کو تعلیم دینا شروع کر دی اور اپنا سارا علم صدر الدین کے سینے میں منتقل کر دیا۔جب جابر کا آخری وقت آن پہنچا،تو خلیفہ مامون الرشید نے اس کے سرہانے کھڑے ہو کر کہا جابر تم تو اپنا علم اپنے ساتھ لیکر جا رہے ہو،ہمارے لئے کس کو چھوڑے جا رہے ہو؟جابر نے صدر الدین کا ہاتھ مامون کے ہاتھ میں دے کر زندگی سے ہاتھ چھڑا لیا۔

کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے سائنسدان انسان دوست تھے،انسانیت کی بھلائی کیلئے کام کرتے تھے۔پھر یہ سنہری زنجیر ٹوٹ گئی،بغداد لٹ گیا،بیت الحکمتہ کی لائبریری دریائے دجلہ کی نذر ہو گئی اور ہم نے حکمرانی کو تعیش کا ذریعہ بنا لیا“۔

علم کیمیا میں ایجادات:

مسلمانوں سے پہلے علم کیمیا کو شعبدہ بازی سے زیادہ حیثیت حاصل نہیں تھی۔

لیکن انہوں نے کیمسٹری کو ایک کارآمد فن بنا دیا،اس علم میں تجربات کرکے دنیا کو حیران کر دیا۔اس فن میں خالد بن یزید،جابر بن حیان،رازی،ذوالنون مصری اور ابن وحشیہ ممتاز کیمیا دان تھے۔تاہم جابر نے اپنے استاد امام جعفر صادق رحمة اللہ علیہ کی رہنمائی میں اس فن کو زندہ جاوید بنا دیا۔تذکرہ نگاروں نے لکھا ہے کہ جابر ابن حیان کی کیمیائی لیبارٹری کوفہ شہر میں دریائے دجلہ کے کنارے پر واقع تھی جس کے آثار قدیمہ اس کی وفات کے 200 سال بعد کوفہ کے باب د مشق کے پاس مکانوں کو منہدم کرتے ہوئے دریافت ہوئے تھے۔

جابر نے درج ذیل کیمیاوی عملیات (پروسیس) سے طب یونانی کو نئی سمت عطا کی جس کی وجہ سے فن دوا سازی نے ترقی کے منازل طے کئے تھے۔

تحلیل(issolution):کسی منجمد مادہ کو جس میں حل ہونے کی صلاحیت موجود ہو اس کو کسی دوسری چیز سے ملا دینا تحلیل کہلاتا ہے۔جو منجمد چیز سیال صورت اختیار کر لیتی ہے اس کو محلول کہتے ہیں۔تبخیر (evaporation) ادویہ کو بخارات بنا کر اڑانا جیسے بھاپ بنانا مختلف مقاصد کیلئے کیا جاتا رہا ہے۔

اگر کسی دوا میں رقت زیادہ ہو اور اسے غلیظ بنانا ہو تو حرارت پہنچا کر اس کے رقیق اور مائی اجزاء کو اڑا دیا جاتا ہے۔اکثر ربوب اسی ترکیب سے بنائے جاتے ہیں۔تقلیم (crystallisation) اس کے معنی قلمیں تیار کرنا ہے۔خالص شورہ کو پانی میں حل کرکے اس کو سکھایا جائے تو یہ قلمی شکل میں تبدیل ہو جاتا ہے۔اسی طرح گندھک کو اگر پگھلا کر چھوڑ دیا جائے تو یہ قلم دار ہو جاتی ہے۔

اس طرح بعض چیزیں تصعید سے اور بعض ترسیب سے قلمی صورت اختیار کر لیتی ہیں۔تکلیس (calcination) ادویہ کو جلا کر چونا جیسا بنا دینا تکلیس کہلاتا ہے۔اس میں احراق کی اصطلاح بہت عام ہے۔اگر دوا جل کر راکھ ہو جائے یا کوئلہ بن جائے تو اس کو عمل احراق (incineration) کہا جاتا ہے۔تکلیس میں گائے کے اوپلے اور بھٹیاں استعمال کی جاتی ہیں۔جو چیز تکلیس کے بعد چونا کی شکل میں حاصل ہوتی ہے اس کو مکلس (کشتہ) کہا جاتا ہے۔

جابر کا کہنا تھا کہ دھات کے کشتہ بنانے کے عمل میں اس کا وزن بڑھ جاتا ہے۔تصعے (Sublimation) کے معنی ہیں جوہر اڑانا۔اس پروسیس میں کسی جامد دوا کو پہلے حرارت پہنچا کر بخارات کی شکل میں تبدیل کر دیا جاتا ہے۔اس کے بعد ان بخارات کو برودت پہنچا کر دوسرے ظرف میں منجمد کر دیا جاتا ہے۔

جابر نے کیمیائی تجربات میں کمال پیدا کرکے اس کے اصول اور قواعد مرتب کئے جو ہزار سال گزرنے کے باوجود آج تک مستعمل ہیں:

(1) عمل تصعید سے دواؤں کا جوہر اڑانا(sublimation) اس طریقہ کو جابر نے سب سے پہلے اختیار کیا۔

(2) اس نے قلماؤ (crystallisation) کا طریقہ دریافت کیا۔( 3) فلٹر کرنے کا طریقہ اس نے ایجاد کیا۔(4) اس نے تین قسم کے نمکیات معلوم کئے۔(5) اس نے دھات کو بھسم کرکے کشتہ بنانے (oxidation) کا طریقہ دریافت کیا۔(6)اس نے کئی قسم کے تیزاب بنائے جیسے نیٹرک ایسڈ،ہائیڈروکلورک ایسڈ(نمک سے)،سلورنائیٹریٹ،امونیم کلورائیڈ،سلفیورک ایسڈ،ان کے بنانے کے طریقے اس کی کتاب صندوق الحکمة میں دیئے گئے ہیں۔

(7)چمڑے اور کپڑے کو رنگنے کا طریقہ دریافت کیا۔(8) محقق جابر نے بالوں کو سیاہ کرنے کیلئے خضاب تیار کیا۔(9)جابر کی سب سے اہم ایجاد قرع انبیق ہے جو عرق کھینچنے کا آلہ ہے اس کے ذریعہ عرق کشید کرنے سے جڑی بوٹیوں کے لطیف اجزاء حاصل ہو جاتے اور ان کے برے اثرات سے محفوظ رہتے ہیں۔(10)اس نے کپڑے اور لکڑی کو واٹر پروف کرنے کیلئے وارنش ایجاد کیا۔

(11) اس نے گلاس بنانے میں مینگانیز ڈائی آکسائیڈ تجویز کیا۔(12)اس نے بتایا کہ لوہے کو صاف کرکے فولاد بنایا جا سکتا ہے یعنی وہ میٹالرجی سے بھی واقف تھا۔اس نے لوہے کو زنگ سے بچانے کا طریقہ نکالا۔(13)دھاتوں کے بارے میں بتایا کہ سب دھاتیں گندھک اور پارے سے بنتی ہیں،دھات کا کشتہ بنانے پر اس کا وزن قدرے بڑھ جاتا ہے۔اس کا کہنا تھا کہ اگر کسی دھات میں سلفر،مرکری کے اجزاء کو مد نظر رکھتے ہوئے اگر اس کے خواص کو دوبارہ ترتیب دے دیا جائے تو نئی دھات بن جائے گی۔


(14)اس نے موم جامہ بنایا تاکہ اشیاء کو رطوبت سے خراب ہونے سے بچایا جا سکے۔(15)اس نے گریس(Grease) بنانے کا فارمولا ایجاد کیا۔(16)اس نے بہت سارے پریکٹیکل کیمیائی ترکیبیں (chemical process) دریافت کئے،یوں اس نے اطلاقی سائنس کی بنیاد رکھی۔(17)اس نے ماء الملوک Aqua regiaنام کا تیزاب تیار کیا جس میں سونا تحلیل ہو جاتا تھا۔ماء الملوک اس نے پھٹکری alum،ہیرا کسیس ferrous sulphate،شورہ قلمی potassium nitrate،نوشادر ammonium chloride سے بنایا تھا۔

(18)زریں حروف میں کتابت کا طریقہ بھی اسی نے شروع کیا۔اس نے قیمتی دستاویزوں کیلئے روشنائی ایجاد کی۔(19)اس نے سلفیورک ایسڈ بنایا،نائیٹرو ہائیڈروکلورک ایسڈ بنایا،کاسٹک سوڈا بنایا،اس نے CH3COOH بنایا جس کو اس نے سرکے کا تیزاب acetic acid کا نام دیا تھا۔اس نے سڑک ایسڈ(لیموں میں پایا جاتا)اور ٹارٹیڑک ایسڈ دریافت کیا جو وائن بنانے کے دوران حاصل ہوتا ہے۔

(20)اس نے کہا کہ وائن کو ابالنے سے بخارات پیدا ہوتے جس کی وجہ سے ایتھانال (الکحل)الکندی اور الرازی نے دریافت کی تھی۔(21)جابر نے سلفائیڈ سے سفیدہ یعنی lead carbonate،اور سنکھیا اور کحل antimony بنانے کے طریقے ایجاد کئے۔(22)جابر نے خالص توتیا Copper sulphate،پھٹکری alum،شورہ قلمی ammonia salt بنانے کے طریقے بیان کئے۔(23)جابر نے مرکری آکسائیڈ اور دیگر دھاتوں کے acetate تیار کئے جو بعض اوقات قلموں کی شکل میں ہوتے ہیں۔

(24)جابر نے تمام دھاتوں کو کیفیت کے اعتبار سے تقسیم کیا اور بتایا کہ پارہ اور گندھک تمام دھاتوں میں نمایاں ہوتے ہیں۔(25)جابر نے بتایا کہ مقدار مادہ اور کیمیاوی عمل کی رفتار کے مابین خاص تعلق ہوتا ہے اسی بناء پر اس نے میزان (balance) ایجاد کی۔(26)اس نے پینٹ بنائے جن کو کپڑوں اور کھالوں پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔

جابر نے جو قرع انبیق ایجاد کیا اس کے دو حصے تھے:

ایک حصے میں کیمیاوی مادوں کو پکایا جاتا تھا۔اس مرکب سے اٹھنے والے بخارات کو ایک نالی کے ذریعہ آلے کے دوسرے حصے میں لے جا کر ٹھنڈا کیا جاتا تھا یہاں تک کہ وہ ایک بار پھر مائع میں تبدیل ہو جاتے تھے۔یہ عمل کشید کہلاتا ہے اور آج کل بھی جو آلہ اس عمل کیلئے لیبارٹری میں استعمال ہوتا ہے وہ قرع انبیق کے مشابہ ہے۔

اس آلے کا نام ریٹارٹ Retart ہے۔جابر نے شورے کا تیزاب (نٹرک ایسڈ) اسی قرع انبیق کی مدد سے دریافت کیا تھا۔اس تیزاب کی تیاری کے بارے میں وہ لکھتا ہے:

میں نے قرع میں کچھ پھٹکری ہیراکسس اور قلمی شورہ ڈالا اور اس کے منہ کو انبیق سے بند کرکے اس کو کوئلوں پر رکھ دیا۔

تھوڑے عرصے کے بعد میں نے دیکھا کہ حرارت کے عمل سے انبیق کی نلی میں سے بھورے رنگ کے بخارات نکل رہے تھے۔


یہ بخارات بیرونی برتن میں جو تانبے کا تھا داخل ہو کر مائع کی حالت میں بدل جاتے ہیں لیکن یہ مائع اتنا تیز تھا کہ اس نے تانبے کے برتن میں سوراخ پیدا کر دیئے۔میں نے اس کو چاندی کی کٹوری میں جمع کرنے کی کوشش کی۔لیکن اس میں بھی اس مائع سے سوراخ پڑ گئے۔چمڑے کی تھیلی میں بھی اس مائع نے چھید ڈال دیئے۔خود قرع انبیق کو بھی اس سے نقصان پہنچا اور اس کا رنگ اتر گیا۔

میں نے اس مائع کو انگلی لگائی میری انگلی جل گئی اور مجھے کئی روز تکلیف رہی۔میں نے اس کا نام تیزاب رکھا اور اس کی تیزی میں قلمی شورے کی مقدار زیادہ ہے اس لئے اس کو قلمی شورے کا تیزاب کہنا مناسب ہو گا۔عام اشیاء میں سے ایک سونا اور دوسرا شیشہ یہی دو چیزیں مجھے ایسی مل سکیں جن پر اس تیزاب کا کچھ اثر نہ تھا“۔

زریں کارنامے:

رسالہ تہذیب الاخلاق ستمبر 2008ء،علی گڑھ یونیورسٹی،انڈیا،میں سراج الدین ندوی نے جابر کے درج ذیل کارنامے گنوائے ہیں:

جابر کے زمانے تک علم کیمیا کا مفہوم بہت محدود تھا۔

لوگ تانبہ،پارہ اور چاندی سے سونا بنانے کو کیمیا سمجھتے تھے اور اپنی زندگی اسی کوشش میں گزار دیتے تھے۔جابر ابن حیان نے کیمیا کے اس دائرے کو توڑا،اور علمی تجربات سے بہت سی مفید چیزیں بنائیں۔

اس نے مطالعہ،علم اور مشاہدہ کو کافی نہیں سمجھا،تجربات کو اہمیت دیتے ہوئے تجرباتی تحقیق کو اپنے کاموں کیلئے بنیادی اصول قرار دیا۔

اس کا ایک اہم کارنامہ تین معدنی تیزابوں کی دریافت ہے۔


اس نے لوہے کے زنگ سے ایک ایسی دوات بنائی جو شاہی فرمان اور قیمتی دستاویزات لکھنے کیلئے استعمال کی جاتی تھی۔اسی دوات سے لکھی گئی تحریریں اندھیرے میں آسانی سے پڑھی جا سکتی تھیں۔

جابر نے ایسا کاغذ ایجاد کیا جسے آگ بھی نہیں جلا سکتی تھی۔اس پر اہم خطوط اور شاہی فرمان ،اور حکم نامے لکھے جاتے تھے اور ایسی روشنائی ایجاد کی جو رات کو پڑھی جا سکتی تھی۔

یہ روشنائی اس نے اپنے استاد امام جعفر صادق رحمة اللہ علیہ کی خواہش پر ایجاد کی تھی۔

اس نے ایک ایسا وارنش ایجاد کیا جو کپڑے کو بھیگنے،لکڑی کو جلنے اور لوہے کو زنگ لگنے سے محفوظ رکھتا تھا۔

اس نے ایسا پتھر دریافت کیا جو زخموں اور فاسد عضلات کو داغنے کے کام آتا تھا۔یہ طریقہ زخموں کو خشک کرنے کیلئے استعمال ہوتا ہے۔

جابر نے بالوں کو سیاہ کرنے کے لئے خضاب تیار کیا جو آج تک استعمال ہوتا ہے۔


اس نے دواؤں کو قلمانے کا طریقہ ایجاد کیا اور بہت سی دواؤں کو قلما کر نہایت مفید اور موٴثر بنایا۔

جابر نے سب سے پہلے یہ نظر یہ پیش کیا کہ حرارت سے گیسیں پیدا ہوتی ہیں اور جن چیزوں سے گیسیسں بنتیں ان کی اصلیت میں بنیادی سالماتی تغیر پیدا ہوتا ہے۔

دواؤں کا جوہر اڑانا جسے عمل تصعید کہا جاتا ہے سب سے پہلے جابر ہی نے دریافت کیا تھا۔

اس نے ایسا آلہ ایجاد کیا جو عرق کھینچنے،ست نکالنے اور تصعید کرنے کا کام دیتا ہے۔اس کا نام قرع انبیق تھا۔یہ آلہ اس نے چکنی مٹی سے بنایا تھا۔یہ دو برتنوں پر مشتمل تھا ایک کو قرع اور دوسرے کو انبیق کہا جاتا ہے۔قرع کی شکل صراحی کی طرح اور انبیق کی شکل بھبھکے جیسی ہوتی تھی جس میں ایک نلی لگی ہوتی تھی۔اب یہ آلہ مٹی کے بجائے ٹن Tin سے بنایا جاتا ہے۔


جابر نے متعدد اپلائیڈ کیمیکل پروسیس ایجاد کئے،یوں وہ اپلائیڈ کیمسٹری میں رہنمائے اول کی حیثیت اختیار کر گیا۔

جابر ابن حیان کی کتاب صندوق الحکمہ میں نٹرک ایسڈ بنانے کی ترکیب یوں دی گئی ہے:

جابر نے عناصر کو دھات اور غیر دھات میں تقسیم کرکے ان کی تین اقسام بتائیں:

مائع جو گرمی ملنے پر بخارات میں تبدیل ہو جاتے:جیسے آرسینک،کافور،مرکری،سلفر اور ایمونیم کلورائیڈ۔


دھاتیں جیسے سونا،چاندی،ٹین،لوہا،تانبا اور شیشہ۔

ایسی چیزیں جن کو سفوف میں تبدیل کیا جا سکتا جیسے کہ پتھر۔

جابر کا ایک تجربہ:

”میں نے پہلے قرع انبیق میں تھوڑی پھٹکری ،ہیراکسس،اور قلمی شورہ ڈالا(وزن کے ساتھ)اور اس کے منہ کو انبیق کے ساتھ بند کر دیا،پھر اسے کوئلوں کی آگ پر رکھا۔ذرا دیر بعد دیکھا تو حرارت کے عمل سے انبیق کی نلی سے بھورے رنگ کے بخارات نکل رہے ہیں۔

یہ بخارات اندر ہی اندر اس برتن میں سوراخ کر گئے جو تانبے کا تھا۔یہ بخارات وہاں ٹھنڈے ہو کر مائع(پانی)کی صورت میں آجاتے تھے۔یہ دیکھ کر میں نے اس مائع کو چاندی کی کٹوری میں جمع کرنے کی کوشش کی تو اس میں بھی سوراخ ہو گئے۔چمڑے کی تھیلی نما بوتل بنا کر جلدی سے اس میں جمع کرنا چاہا تو وہ بھی بیکار ہو گئے۔خود قرع انبیق کو بھی اس سے نقصان پہنچا۔

میں نے اس مائع کا نام تیزاب رکھا۔اس میں قلمی شورہ کا جز تھا۔اس لئے اس نئی چیز کا نام قلمی شورے کا تیزاب رکھا،یہ تیزاب اتنا تیز تھا کہ کوئی برتن نہ بچ سکا۔صرف دو ایسی چیزیں تھیں،جن پر اس تیزاب نے کچھ اثر نہ دکھایا۔ایک تھا سونے کا برتن اور دوسرا شیشے کا“۔

کیا جابر یورپین عالم تھا؟

یورپ کے کیمیادان برتھے لاٹ Berthelot نے انیسویں صدی میں یہ شوشہ چھوڑا کہ لاطینی میں جابر Geber کے نام سے کتابیں کوئی یورپین کیمیا دان لکھتا رہا تھا۔

برتھے لاٹ فرانس کا کیمیا کی تاریخ کا مشہور زمانہ مورخ تھا جس کی شہرت اور اتھارٹی کو ہر کوئی تسلیم کرتا تھا۔جونہی اس کا مفروضہ چھپ کر لوگوں میں پھیل گیا تو یورپ کے تمام مورخین نے بغیر کسی جرح کے اس کو بقول کر لیا ماسوا جرمنی کے پروفیسر ہولم یارڈ Holmyard کے۔انہوں نے سائنس کے سائنس کے رسالہ پروگریس کے جنوری 1925ء کے شمارے میں جابر کے حالات اور تصنیفات پر مفصل اور پرمغز مضمون لکھا اور دلائل سے ثابت کیا کہ جابر وہی شخص تھا جس کو لاطینی میں سکالرز گیبر Geber کے نام سے پکارتے ہیں۔

یہ بھی لکھا کہ جتنی کتابیں گیبر کے نام سے منسوب ہیں وہ سب اسی نامور قابل فخر،یگانہ روزگار عراقی مصنف کی کتابوں کے تراجم ہیں۔اس کے بعد سکالرز اس جستجو میں لگ گئے کہ ایسی کتابیں یا مسودات تلاش کریں جس سے یہ مفروضہ ثابت ہو سکے۔برتھے لاٹ کے حق میں پورے سو سال تک لٹریچر شائع ہوتا رہا مگر پھر بھی اس کے بودے دعویٰ کو کوئی سچا ثابت نہ کر سکا۔

بات یہ ہے کہ جابر کی کیمیا میں تمام کتابوں کے تراجم یورپ میں دیر سے ہوئے تھے اس لئے وہ شہرت نہ حاصل کر سکا۔چنانچہ roger bacon scot beauvais albertus magnus جیسے عالموں نے جابر کے حوالے اپنی کتابوں میں نہیں دیئے تھے۔تیرھویں صدی میں جابر کو یورپ میں کوئی نہیں جانتا تھا کیونکہ یورپ میں علم کیمیا تیرھویں صدی تک نامعلوم مضمون تھا۔اس لئے یہ ناممکن ہے کہ کوئی یورپین عالم اتنی عمدہ تکنیکی کتابیں لکھنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔


تصانیف:

جابر محض کیمیا دان ہی نہیں بلکہ مختلف علوم و فنون پر اس کو قدرت حاصل تھی۔اس کی شخصیت کا ہر پہلو اس کی عظمت و شہرت میں چار چاند لگاتا تھا۔کیمیا کے علاوہ جابر فلسفہ،ریاضیات،طب و حکمت،معقولات،فلکیات و نجوم ،طبیعات،ہیئت،سحر و فسوں گری کے میدان کا شہسوار نظر آتا تھا۔زکریا الرازی نے جابر کی کئی کتابوں کو نظم کیا تھا۔

جس طرح قدیم کیمیا گر اپنے فن کی اساس مسیحی ادریت(باطنی علم)پر رکھتے تھے،اسی طرح جابر نے اپنے نظام علوم کی بنیاد مسلمانوں کے عرفان(باطنی علم)پر رکھی تھی۔اس کے علم کا بنیادی اصول (میزان)تھا۔اپنے عمل اور تجرباتی و مشاہداتی کاموں کے علاوہ جابر نے کئی مایہ ناز تصانیف قلم بند کیں۔اسرار الکیمیا،کتاب السبعین،کتاب الزہرہ،کتاب الاسطقس،کتاب الکحال،کتاب الروح،کتاب الشمس کبیر، کتاب الشمس الصغیر۔

کتاب الخمس مأة،کتاب الماء الاثنا عشر،کتاب الملک۔

جابر علم کیمیا کا محقق اور بے شمار کیمیائی مرکبات کا موجد تھا۔اس نے علم کیمیا پر 100 کے قریب شاہکار کتابیں اور پراز معلومات رسالے سپرد قلم کئے۔جن کی فہرست ابن الندیم نے اپنی شہرہ آفاق کتاب فہرست میں دی ہے۔اس کی ترجمہ شدہ کتابوں میں کتاب الملک (Book of kingdom)اور کتاب الریاض (Book of balance) اور Book Of Eastern Mercury انگلش میں دستیاب ہیں۔

ان تین کتابوں کا مترجم یورپین سکالر M.Berthelot تھا۔بقول پروفیسر ہتی کے جابر ابن حیان کی کتب نے یورپ اور ایشیا کے علم کیمیا پر گہرا اثر چھوڑا تھا۔اس کی کتاب الکیمیا کا لاطینی ترجمہ رابرٹ آف چیسٹر (Chester) نے 1144میں کیا۔جبکہ کتاب السبعین کا ترجمہ جیرارڈ آف کریمونا نے 1187ء میں کیا تھا۔اس کتاب میں 70 کیمیاوی تراکیب کا ذکر ہے۔جابر خلیفہ ہارون الرشید کا سائنسی مشیر تھا جس کیلئے اس نے کتاب الزہرہ لکھی تھی۔

اس نے کتاب الاحجار میں ایسی خفیہ زبان steganography استعمال کی تھی کہ اس میں دی گئی باتوں کو وہی شخص سمجھ سکتا جس کو کیمیا میں شدھ بدھ ہو۔اس نے کتاب میں علامات استعمال کیں جن کے لفظی اور لغوی معنی جاننا قدرے مشکل ہے۔کتاب الاربعین میں فلسفیانہ اساس کی روشنی میں جملہ علوم نظری و باطنی کا احاطہ کیا گیا تھا۔رسائل جابر بن حیان،ایک ہزار صفحات پر مشتمل متعدد رسائل 1530 ء اور 1925ء کے درمیان سٹراس بورگ سے شائع ہوئے تھے۔


جابر کی اسرار الکیمیا کا لاطینی ترجمہ تیرھویں صدی میں کیا گیا تھا یعنی Summa perfectionis magisterii۔جارج سارٹن کے بقول یہ کتاب عہد وسطیٰ کے یورپ میں اس قدر مقبول ہوئی کہ جلد ہی علم کیمیا کی نصابی کتاب بن گئی۔کتاب اس قدر آسان الفاظ میں لکھی گئی تھی کہ اس جیسی کتاب کئی صدیوں تک نہ لکھی جا سکی۔یہ کتاب اسی معیار کی تھی جیسی الرازی کی کتابیں علم کیمیا پر تھیں۔

روم سے پہلی بار 1481ء میں جدید پریس پر طبع ہوئی تھی۔ویٹکن(اٹلی)میں اس کتاب کا جو مسودہ تھا اس کو سامنے رکھ کر پہلا اطالوی ترجمہ 1510ء میں ہوا تھا۔اس کے بعد وینس،نیورمبرگ،برن،لیڈن سے اس کتاب کے کئی ایڈیشن طبع ہوئے تھے۔یہ کتاب 1685ء میں لیڈن (ہالینڈ) سے شائع ہوئی اور ڈینزگ سے 1682ء میں۔جابر کی چار اور کتابوں کے لاطینی تراجم بھی ایک جلد میں شائع کئے جاتے تھے۔

یعنی:

جابر نے بہت ساری کیمیائی اصطلاحات ایجاد کی تھیں جو بعد میں متعدد یورپین زبانوں میں سائنسی اصطلاحات کا حصہ بن گئیں۔جابر پہلا کیمیا دان تھا جس نے کہا کہ دھاتیں ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہیں کیونکہ ان میں سلفر اور مرکری کا تناسب مختلف ہوتا ہے۔کیمیا میں بہت ساری فنی اصطلاحات فارسی ناموں کی ہیں جیسے زیبق (مرکری) اور نوشادر (سال امونیک۔

اس سے پتہ چلتا ہے کہ عہد وسطیٰ کے علم کیمیا کے فروغ میں ایرانی کیمیا دانوں کا بھی ہاتھ تھا۔جرمن سکالر رسکا Ruska کا کہنا ہے کہ جس شخص نے سب سے پہلے الاکسیر تلاش کرنے کیلئے تجربہ کیا وہ ایران کا باشندہ ایریس Arius تھا۔ایریس کا کہنا تھا کہ انسان میں اتنی استطاعت ہے کہ وہ فطرت کے کاموں کی نقالی کر سکے۔

مغربی مصنف ہوم یارڈ Holmyard کا کہنا ہے کہ کیمیا کی تاریخ میں جابر کو وہی اہمیت اور مقام حاصل ہے جو برطانوی کیمیا دان رابرٹ بوئیل اور فرنچ سائنسدان انٹوئین لیوائزیر Lavoisier کو حاصل ہے۔

میکس مائرہاف Max Meyerhof کا کہنا ہے:

فرانس کے محقق و مصنف برتھے لاٹ Berthelot نے اعتراض کیا تھا کہ جابر کی کتابوں میں مادی اشیاء تیار کرنے کے نسخے نہیں پائے جاتے ہیں۔ پروفیسر احمد حسن نے جابر کی کتابوں کے 59 مخطوطوں کے دقیق مطالعہ کے بعد کہا کہ یہ بالکل غلط بیانی ہے۔جابر کی کتابوں میں متعدد نسخے پائے جاتے ہیں مثلاً اس نے کتاب الدرة المکنونة میں نسخوں پر ایک پورا باب لکھا۔

اس میں گلاس کو رنگین کرنے کا نسخہ،مصنوعی موتی بنانے کا اور ان کا رنگ بہتر کرنے کا نسخہ نیز کئی ایک انڈسٹریل مصنوعات کے نسخے دیئے تھے۔کتاب الخواص الکبیر میں متعدد کیمیائی اور مصنوعات بنانے کے نسخے دیئے گئے تھے جیسے سمندر کے پانی سے نمک نکالنا،فولاد کی تپائی کے عمل سے ڈھلائی کرنا،زنجفر cinnabar کا بنانا،کاسمیٹک کے نسخے جیسے جسم سے بال دور کرنا،سر کے بالوں کا رنگ سنہری کرنا،دلہن کے ہاتھ مختلف رنگوں سے رنگین کرنا،وارنش اور پینٹ بنانا اور واٹر پروفنگ،مختلف رنگ کی روشنائی بنانا۔


جابر کی درج ذیل کتابیں امریکہ کی نیشنل لائبریری آف میڈیسن،میری لینڈ میں موجود ہیں:کتاب الملاغم الاول،الثانی ،الثالث،تفسیر کتاب الملاغم،کتاب التدابیر،کتاب الموازن،کتاب الاصول،کتاب سر السارو سرالا سرار،منتخب من کتاب الاتحاد،کتاب سر المکنون،کتاب الواحد،کتاب تفسیر الخمائیر،کتاب الباھر،کتاب الشعر،کتاب الخمائیر الثالت ،کتاب الخالص المبارک NLM,NIH<GOV/hmd/ arabic

کیمیا کے موضوع پر مسلمان عالموں نے جو کتابیں قلم بند کیں ان کی قدری تفصیل پروفیسر نصر نے اپنی کتاب اسلامک سائنس میں دی ہے۔

ابن وحشیہ کتاب اصول الکبیر،ابن مسکاوے کی کتابیں،ابو مسلمہ مجریطی رتبات الحکیم وغایت الحکیم(یہ ابو القاسم مجریطی سے مختلف سائنسدان ہے)،ابو القاسم کوشیری،ابو الحسن جیانی شذور الذھب،شمس الدین برنی شمس المعارف ،ابن الحجاج طلمیسانی شموس الانوار،ابو القاسم عراقی کتاب العلم المکتسب فی زیادة الذھب،عزالدین ایدا مور جلد کی نہایة الطلب شرح علم المکتسب ،علی بیک ازنیکی پندرھویں صدی کتاب الاسرار فی حتک الاستار،عبدالکریم مراکشی رسالہ روحادیت،شہریار بہمن یار پارسی تجارب شہریاری۔

Post a Comment

0 Comments