تحریر: آمنہ نواز
"نہ سڑکیں ختم ہوتی ہیں نہ تنہائی,بس آدمی ختم ہو جاتا ہے," آدھی رات کو سڑک پر چلتے ہوئے اس نے سوچا”
دیکھیں! مجھے آپ سے محبت نہیں ہے,' زارا کے کہے الفاظ اس کے دماغ میں گونج رہے تھے۔'
شادی کی پہلی رات بھلا کوئی ایسی بات کرتا ہے جو عون کی بیوی نے کی تھی. وہ گھبرا کر کمرے سے نکلا اور برآمدے میں چلنے لگا.سب مہمان سو رہے تھے'وہ گھر کا بیرونی دروازہ کھول کر باہر سڑک پر آگیا۔
"سڑک میری پیاری سڑک, تم نہ ہوتی تو میں کس قدر تنہا ہوجاتا"
وہ بہن بھائیوں میں سب سے بڑا تھا اور ایک نجی فرم میں نوکری کرتا تھاجہاں اس کی تنخواہ بہت کم تھی۔
'اس سے گھر نہیں چلے گا,دیکھو تم گھر کے بڑے ہو,تم نے پانچ بہنوں کی شادی کرنی ہے,بھائی کو پڑھانا ہے,ابا نے جو قرض لیا تھا وہ واپس کرنا ہے,گھر بنوانا ہے,اس تنخواہ سے تو کچھ نہیں ہوگا,'وہ روز یہ باتیں سنتا تو پریشان ہو جاتا اور زیادہ سے زیادہ روپے کمانے کے منصوبے بناتا رہتا۔
وہ 25سال کی عمر میں بیرون ملک چلا گیا اور پھر اس نے بڑا بن کر دکھایا بھی تھا.25 سے 45 سال تک اس نے خود کو ایک مشین میں ڈھال لیا تھا,اس نے نہیں سوچا کہ اس کی اپنی بھی ایک زندگی ہے.وہ جس دن بیمار بھی ہوتا تو کام پر جاتا کہ اس کے سامنے فرائض کا ایک پہاڑ کھڑا تھا جسے آخرکار اس نے دن رات ایک کرکے سر کر لیا تھا۔
سب بہنوں کی شادی دھوم دھام سے کی,اس کا چھوٹا بھائی انجینئر بن گیا اور 2 سال قبل وہ بھی اپنی پسندکی شادی کر کے دوسرے شہر چلا گیا.20 سال بعد وہ اپنے ملک واپس لوٹ آیا جہاں آگے فقط ایک خالی مکان تھا جو اس کا اپنا تھا.جلد ہی اسے ایک کمپنی میں نوکری مل گئی تھی۔
اس کی بہنیں اسے فون کرتیں تو کہتیں'بھیا اب شادی کرلیں کب تک اکیلے گھر میں رہیں گے اور اب تو آپ پر کوئی ذمہ داری بھی نہیں,'وہ یہ باتیں سنتا اور سوچتا کہ بھلا اب وہ اس بات کا کیا جواب دے.اسے یہ فرمائش بہت دور سے آتی کوئی آواز معلوم ہوتی,عموماً وہ کہتا اب بھلا اس عمر میں کیا شادی کروں؟
'ابھی آپ کونسا بوڑھے ہو گئے ہیں؟45سال تو کوئی عمر نہیں ہوتی'
لیکن کئی روز سے اس کے اندر ایک عجیب سی تبدیلی پیدا ہو گئی تھی,وہ دفتر سے گھر آتا تو ایک بے پناہ اداسی کی لہر اس کا دامن پکڑ لیتی,وہ جلدی جلدی رات کا کھانا کھاتا اور سڑک پر آکر ٹہلنا شروع کر دیتااور گزشتہ زندگی کے بارے میں سوچنا شروع کر دیتا جو انتہائی تنہا تھی جتنی کہ یہ سڑک، سڑک پر تو پھر کبھی کبھار کوئی نہ کوئی گزرتا رہتا تھا لیکن اس کی زندگی تو بالکل خالی تھی۔
پہلے پہل یہ کیفیت تھوڑی دیر کے لیے رہتی پھر وہ ٹھیک ہو جاتا لیکن اب تنہائی اور اداسی کا دورانیہ بڑھ گیا.وہ کسی محفل میں بھی ہوتا تو خود کو مکمل طور پر تنہا محسوس کرتا۔ اکثر راتوں کو بستر پر بیٹھے بیٹھے رونے لگ جاتا،وہ تنہائی کے اس لامحدود سمندر میں اپنے زندہ رہنے کا جواز ڈھونڈ رہا تھا۔اس کے حصے میں جو ذمہ داریاں تھیں ان سب سے وہ سبکدوش ہو چکا تھا,تو اب وہ کیوں کر زندہ رہے؟
ماضی میں جب کبھی کسی نے اس کے دل پہ دستک دی تو اس نے یہ کہہ کر دل کو سمجھا لیا کہ اس کے کاندھوں پر ابھی بہت سی ذمہ داریاں ہیں وہ اپنے بارے میں بھلا کیسے سوچ سکتا تھا۔
لیکن اب کچھ عرصے سے اس کے اندر ایک خلا سا پیدا ہو گیا تھا۔خالی سڑک پر جب وہ خود سے باتیں کرتے ہوئے گزر رہا ہوتا تو اس کو اپنی آواز باز گشت کی طرح سنائی دیتی تھی۔ایک روز وہ گھبرا کر ماہر نفسیات کے پاس چلا گیا۔
معلوم نہیں میں آپ کو کیسے سمجھاؤں یا شاید میرے پاس مناسب الفاظ نہیں,'ڈاکٹرصاحب یہاں اندر ایک عجیب خلا سا ہے' اس نے سینے پر ہاتھ مار کر کہا۔
آپ رات کو کتنی دیر سوتے ہیں؟'ڈاکٹر نے پوچھا۔'
ایک دو سال پہلے تو میں 7,8 گھنٹے سو لیتا تھا لیکن اب بہت کم سوتا ہوں,آخر آدمی سڑک پر سو تو نہیں سکتا۔
کیا مطلب آپ کا گھر نہیں ہے؟'ڈاکٹر نے پوچھا۔'
جی جی بالکل میرا گھر ہے لیکن مجھے اب اپنے گھر سے وحشت ہونے لگی ہے میں ساری رات سڑک پر چلتا رہتا ہوں۔کوئی اداسی سی ہے, مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ آخر مجھے کیا ہو گیا ہے۔
آپ سمجھ رہے ہیں نا ڈاکٹر صاحب؟
جی جی میں سمجھ رہا ہوں, دراصل آپ کو آرام اور نیند کی سخت ضرورت ہے,'ڈاکٹر نے اس کے لیے نیند کی دوا تجویز کی جسے وہ گھنٹوں ہاتھ میں لیے بیٹھا رہتا کہ کھانی چاہیے یا نہیں اور پھر تنگ آ کر باہر سڑک پر نکل آتا۔
مجھے شادی کر لینی چاہیے,شاید مجھے کسی کی محبت کی ضرورت ہے۔عون نے سوچا 'ایک محبت جو اس خلا کو پر کر دے'
اب کی بار عون کی بہن نے اس کے رشتے کی بات کی تو اس نے کہا'بھئ کوئی رشتہ لاؤ تو میں فیصلہ کروں نا!
ارے واہ!آپ کے لیے کوئی لڑکیوں کی کمی ہے,بلکہ ایک رشتہ تو میری نظر میں پہلے سے ہی ہے,میرے شوہر کی پھپھو کی بیٹی ہے زارا نام ہے,وہ آج کل اس کے رشتے کے لیے پریشان ہیں,میں موبائل سے آپ کو اس کی تصویر بھیجتی ہوں
تصویر رہنے دو,اب اس عمر میں مجھے شکل و صورت کی پرواہ نہیں, تم ان سے بات کرو اگر انہیں میری عمر اور مالی حیثیت پر کوئی اعتراض نہیں تو میری طرف سے ہاں ہے۔
لڑکی والوں نے بھی فوراً ہاں کردی تھی۔ایک ماہ بعد اس کی شادی کی تاریخ طے پائی,اس عرصے کے دوران بھی وہ رات بھر سڑک پر پھرتا رہتا تھا۔خالی بستر اور تنہا مکان سے زیادہ اداس کچھ بھی نہیں ہوتا,سو وہ سڑک کی جانب دوڑتا۔بس ایک مہینے کی بات ہے زارا آجاۓ گی تو پھر یہ ساری وحشت ختم ہو جائے گی
وہ سڑک پر چہل قدمی کرتے ہوئے ساری رات یہی سوچتا رہتا۔
آج جب وہ شادی کی پہلی رات کمرے میں داخل ہوا تو مدت بعد تنہائی اور وحشت نے اس کا دامن نہ پکڑا۔ وہ خود کو بہت ہلکا پھلکا محسوس کر رہا تھا۔اس نے سوچا واقعی یہی کمی تھی جو آج پوری ہو گئی ہے۔
آپ ٹھیک ہیں,'اس نے بات کا آغاز کیا۔'
جی ٹھیک ہوں,'جواب ملا۔'
آج ہم نے زندگی کے نئے سفر کا آغاز کیا ہے,میں کوشش کروں گا آپ کو یہاں کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے.یہ گھر آپ کا ہے آپ جیسے چاہیں یہاں رہ سکتیں ہیں۔
"مجھے آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے"
ہاں ہاں کہیے,اس میں بھلا اجازت کی کیا بات ہے,'مدت بعد اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ نے بسیرا کیا۔'
دیکھیے!مجھے آپ سے محبت نہیں ہے,'زارا نے اس سے کہا۔'
پہلے پہل اسے لگا کہ یہ آواز اس کے اندر سے آئی ہے اس نے گبھرا کر اِدھر اُدھر دیکھا۔ یہ آواز کہاں سے آئی تھی؟جب اس بات کا وہ یقین نہیں کرنا چاہتا تھا کہ یہ آواز سامنے سے آئی ہے تو اس نے گبھرا کر کر آہستہ سے کہا' لیکن میں تو آپ کا شوہر ہوں۔
'
اس سے کیا ہوتا ہے, 'محبت نہ ہو تو کچھ نہیں ہوتا', زارا نے عون اس سے کہا۔
عون کو لگا جیسے کوئی جواری زندگی کی بازی کا آخری پتا بھی غلط پھینک بیٹھا ہو۔لیکن آخری چند سانسیں مستعار لینے کی خاطر اس نے پوچھا'کیا تم کچھ دن کے لیے مجھ سے محبت کر سکتی ہو؟ دراصل ایک عجیب سی اداسی نے مجھے گھیرا ہوا ہے اور میں اس سے بے حد خوف زدہ ہوں اور آج پہلی بار میں اس کیفیت سےآزاد ہوا تھا, تم بے شک مجھ سے جھوٹی محبت کرلو۔
محبت ایسے تھوڑی ہوتی ہے, زارا نے جواب دیا۔
عون نے اس سے دکھ بھرے لہجے میں پوچھا,'تو تم نے مجھ سے شادی کیوں کی؟'
میں جس سے محبت کرتی ہوں وہ دبئی میں ہے نوکری کرنے گیا ہے،یہ شادی تو میں نے گھر والوں کے دباوٗ میں آ کر کی ہے۔
لیکن وہ ضرور واپس آ ےٗ گا پھر ہم شادی کر لیں گے آپ چاہیں تو مجھے طلاق بھی دے سکتے ہیں۔
عون جو اپنے گھر کا سب سے بڑا تھا جس نے 40 سال اپنے بارے میں کچھ نہ سوچا تھا کسی بچے کی طرح روتا ہوا گھر سے باہر نکل آیا تھا۔
پھر عون نے سڑک پر رہنا شروع کر دیا اس کی بہنیں آئیں اور اسے سمجھایا کہ وہ گھر لوٹ جاۓ لیکن اس نے کوئی جواب نہ دیا۔ گاؤں والے اس کے پاس آتے بات کرتے لیکن وہ کوئی جواب نہ دیتا۔سارا دن سڑک پر بیٹھا رہتا اور رات کو سڑک پر چلنا شروع کر دیتا۔
اس کی بیوی نے گاؤں والوں کو بتایا کہ شادی کی رات عون بہت عجیب و غریب باتیں کر رہا تھا کہ اس کو کسی اداسی نے گھیر رکھا ہے, سو اسے اس کی دیوانگی کے بارے میں مجھے زیادہ علم نہیں ہے۔
گاؤں کے لوگ عون کو روٹی دے دیتے وہ چپ چاپ کھا لیتا اور سڑک پر پڑا رہتا۔بارشیں آئیں جون, جولائی کی گرمی بھی عون کو اپنی جگہ سے نہ ہلا سکیں۔ انہی دنوں زارا ایک نوجوان کے ساتھ اس کے پاس آئی،عون سڑک کے کنارے درخت کے نیچے سر جھکائے بیٹھا تھا۔
ادھر آؤ یہ کچھ نہیں کہتا,زارا نے نوجوان سے کہا جو کافی فاصلے پر کھڑا تھا۔
سنیے!یہ طٰحہ ہے, دبئی سے لوٹ آیا ہے,میں نے آپ کو اس کے بارے میں بتایا تھا نا, یہ وہی ہے مجھ سے شادی کرنا چاہتا ہے۔
وہ آپ مجھے طلاق دے دیں گے نا؟عون نے کوئی جواب نہ دیا۔
یہ خلع کے کاغذات ہیں, آپ کے دستخط چاہیے تھے, یہ کہہ کر زارا نے کاغذ اس کے سامنے کیا اور قلم اس کے ہاتھ میں تھمایا۔ طحہ اب بھی دور ہی کھڑا تھا۔عون نے قلم پکڑا اور دستخط کر دیے۔ بہت شکریہ آپ کتنے اچھے ہیں, دیکھا میں نے کہا تھا کہ یہ فوراً دستخط کر دیں گے,زارا نے طحہ کی طرف دیکھ کر کہا جو اب دور کھڑا مسکرا رہا تھا۔
وہ سڑک سے اپنے گھر گیا وہاں سے ایک بڑا رجسٹر اور قلم لے کر سڑک کنارے بیٹھ گیا۔ہر گزرتے شخص سے اس کا نام پوچھتا اور رجسٹر میں لکھ لیتا, اس نے سڑک سے گزرتی ہر گاڑی کا نمبر رجسٹر پر درج کرنا شروع کر دیا پھر ایک روز جب وہ ساری گاڑیوں کے نمبر اور گاؤں کے ہر شخص کا نام درج کر چکا تو سڑک پر یہ پکارتے ہوئے دوڑنے لگا کہ,
" سڑک کی تنہائی ختم ہوگئی ہے, اب میں سب لوگوں اور گاڑیوں کو جانتا ہوں, لیکن مجھے کوئی نہیں جانتا“۔
0 Comments