اپنا اپنا دُکھ

فلم ختم ہو چکی تھی۔لوگ باہر نکل رہے تھے۔بیس نے موٹے سے کہا۔”اب ہم گھر جائیں گی۔“
”ہم آپ کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔“
تینوں سپاہی خاموش کھڑے کسی خوشگوار غیر متوقع واقعے کے منتظر تھے۔موٹا لڑکیوں کو بڑے غور سے دیکھ رہا تھا۔پھر اچانک اس نے بڑی معصومیت سے بیس اور میری کو چوم لیا۔
”اور ہم؟“گھوڑے نے احتجاج کیا۔

”میں اور ٹیکساز بھی تو فوج میں ہیں!“گھوڑے نے انہیں چوما‘اس کے بعد ٹیکساز نے۔
ایک عورت چلتے چلتے رُک گئی اور یہ نظارہ دیکھ کر ناک بھوں چڑھانے لگی۔لڑکیاں جلدی سے گلی میں غائب ہو گئیں۔
گھوڑے نے چھلانگ لگائی اور ٹیکساز پر سوار ہو گیا۔اس نے موٹے کو دھکیلا۔تینوں اچھلتے کودتے چلاتے روانہ ہو گئے۔

”یووھوو۔ٹیکساز۔

“گھوڑا چلایا۔
”موٹے کی زبان کیسی چلتی ہے۔کیوں بے شکاگو یونیورسٹی کے موٹے تازے سینیٹر۔“ٹیکساز نے نعرہ لگایا۔
موٹا زور سے ہنسا”یارو جب کانگرس میں منتخب ہو کر پہنچوں گا‘تو حکومت سے کئی شکایتیں کروں گا۔“
”یپی یے یے۔چلے چلو میاں‘کیا ہانک رہے ہو۔اپنا اپنا دکھ ہے‘اکیلے جھیلو۔“
مینڈک مینڈک کھیلتے‘ایک دوسرے کو پھلانگتے‘روشن گلیاں چھوڑ کر وہ اندھیرے کی طرف جا رہے تھے۔
جنگ کی طرف۔

Post a Comment

0 Comments